Blessed Tree

صحابی درخت جس نے 1460 ھجری سال پہلے بارہ سال کی عمر میں میرے آقا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دورانِ سفر سایہ فراہم کیا۔آج بھی قائم و دائم ہے۔

رسولِ خدا حضرت محمّد صلی الله علیہ وسلم ابھی کم سن تھے اور آپکی عمر شریف محض بارہ سال کے لگ بھگ تھی کہ آپ اپنے چچا ابو طالب کے ساتھ ایک قافلے کی شکل میں مکّہ سے بغرض تجارت روانہ ہوے – قافلے نے ملک شام کے جنوب میں اس مقام پر پڑاؤ ڈالا جہاں یہ درخت موجود ہے جو آپ تصویر میں دیکھہ رہے ہیں – اس مقام سے قریب ” بصرہ ” یا” بوسیرہ ” میں ایک عیسائی راہب ”بحیرہ” رہا کرتا تھا – اسنے انجیل مقدس اور دوسری کتابوں میں یہ پڑھ رکھا تھا کہ ایک آخری نبی مکّہ پیدا ہونگے – کتابوں میں اس نبی کے پیدا ہونے کی بہت سی نشانیاں بھی اسنے پڑھ رکھی تھیں – اسکے علم کے مطابق وہ نشانیاں ظاہر ہونا شروع ہوگی تھیں – وہ وقت قریب آ چکا تھا جب الله کے آخری نبی کا ظہور ہونا تھا – وہ الله کے اس عظیم نبی سے ملنے کا خواھشمند تھا – جب یہ قافلہ اسکے شہر کے قریب پڑاو ڈالے تھا تو اسکی متجسس نگاہیں اس قافلے پر مرکوز تھیں – اسکے علم میں جب یہ بات ائی کہ اس قافلے میں ایک بچہ ایسا ہے کہ وہ دھوپ میں جس طرف بھی جاتا ہے بادل کا ایک ٹکڑا اسپر سایہ فگن رہتا ہےتو خبر راہب کو یقین کی حد تک لے گئی کہ یہی الله کے آخری نبی ہیں – لیکن سو فیصد تصدیق کے لیے اسے ابھی کچھہ اور بھی تجربہ کرنا تھا – اسکا اضطراب دیدنی تھا – اسنے قافلے کے تمام لوگوں کو کھانے پر مدعو کیا – سب لوگ دعوت پر آیے لیکن وہ بارہ سال کا بچہ دعوت میں موجود نہیں تھا جس سے وہ راہب ملنے کے لیے بے چین تھا – اس بچے کا نہ انے سے وہ بے قرار باہر کی جانب آیا اور اس قافلے کے پڑاؤ کی جانب دیکھنے لگا- اسنے دیکھا کہ وہ بارہ سال کا بچہ تنہا اس درخت کے نیچے جو آپ کو اس تصویر میں نظر آرہا ہے آرام فرما رہا ہے – اس راہب کو بے قراری اور بڑھ گئی اور اسکو اب یقین کامل ہوگیا کہ یہی وہ ہستی ہے ، یہی وہ آخری نبی ہیں جسکے لیے الله سبحان و تعالی نے اس پوری کائنات کو پیدا فرمایا ہے – اس راہب اس درخت کے بارے میں پڑھ رکھا تھا کہ اس مقدس درخت کے نیچے آخری نبی ہی ہونگے جو آرام فرمائیں گے – اس راہب نے عزت سے کم سن رسول سیدنا محمّد صلی الله علیہ وسلم کو ضیافت میں آنے کی درخواست کی اور پھر لوگوں کو اگاہ کیا کہ یہی وہ آخری نبی ہیں جن کا ذکر پاک مقدس انجیل میں موجود ہے – اس راہب نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے چچا ابو طالب کو نہ صرف مشورہ دیا بلکہ اس بات پر راضی بھی کیا کہ کہ وہ اس عظیم بچے کو واپس مکّہ لے جائیں کیوں کہ بہت سے یہودی اس متبرک بچے کی جان مبارک کے دشمن ہیں اور وہ انکی تلاش میں ہیں – یہ تو وہ روح پرور واقعہ تھا جس نے اس درخت کو متبرک اور مقدس بنا دیا – اور اس درخت زندہ معجزہ اس اعتبار سے کہتے ہیں کہ تقریبا” پندرہ سو سال گزرجانے کا باوجود یہ اپنی جگہ قائم و دائم ہے – حیران کن بات یہ ہے کہ اس درخت کے چاروں طرف سو کلو میٹر کے دور کوئی اور درخت موجود نہیں – اس درخت کے متعلق یہ بھی کہا جاتا کہ یہ پستے کو درخت ہے اور اس میں آج بھی پھل لگتا ہے لیکن اس بات میں کتنی صداقت ہے یہ اسکی حتمی طور سے تصدیق نہیں کی جا سکتی –